گوگل ایڈ

پیر، 24 اپریل، 2017

تیسری دُنیا

2 تبصرے

دور جدید میں جب انسانوں نے مریخ پر آبادکاری کے لئے سنجیدگی سے سوچ بچار اور پلانیگ کرنا شروع کر دی ہے، عین اِسی عہد میں دنیا کے نقشے پر ایک ایسا خطہ پایا جاتا ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کہنےکوتو اِسکو لوگ حویلی فارورڈ کہوٹہ کے نام سے جانتے ہیں مگر حقیقتاً اِس کو بجا طور پر بیک ورڈ کہوٹہ کہا جائے توبے جا نہ ہو گا۔

موجودہ حالات میں اِس خطہ میں داخل ہونے کے دو ہی راستے ہیں ، ضلع باغ سے براستہ ڈھلی لسڈنہ روڈ کو اختیار کیا جائے یا ضلع پونچھ سے ہجیرہ عباسپور روڈ کو اِختیار کیا جائے۔ ڈھلی سے جوں ہی گاڑی لسڈنہ روڈ کی طرف رُخ کرتی ہے، اچانک اُس کو کپکپی اور لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔اچھی بھلی گاڑی کابی پی ڈاؤن ہو جا ہے اور وہ روڈ پر چلنے کی بجائے بمشکل رینگنا شروع کر دیتی ہے۔ ڈھلی سے آگے کہوٹہ کا یہ پچاس کلومیٹر کا سفر ساڑھے تین گھنٹے میں بمشکل طے پاتا ہے جو کہ سفر کم اور ٹارچر زیادہ ہوتا ہے۔گاڑی میں جنگل کے قوانیں نافذ ہوتے ہیں ڈرائیور اور کنڈکٹٹر اِس جنگل کے بادشاہ ہوتے ہیں، اُن کی من مانی کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی، وہ سواری کو ناپسندیدہ قرار دے کر کسی بھی جگہ اُترنے جانے کا حکم صادر کر سکتے ہیں، چنانچہ سواری کو فوراً اَپنی شکایت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ اِس تاریخ ساز روٹ پر گاڑیوں کی حالتِ زار کسی عجوبہ سے کم نہیں ہوتی۔ اگر سیٹ پر تھوڑا سا دباؤ پڑ جائےتو گردو غُبار کے جھونکے اِستقبال کرنے کو دوڑتے ہیں۔باوجود اِس اَمر کے ڈرائیور اپنے آپ کو ایف سولہ کا پائلٹ سمجھتے ہیں۔ ہر گزرتی گاڑی کے پاس رُک کر سلام دُعا کرنا  گپ شپ کرنا ، حتیٰ کہ گاڑی کی چھت بھی کھچا کھچ بھری ہونے کے باوجود ہر سڑک کنارے ہاتھ دینے والے  شخص کے پاس رُک کر پوچھنا کہ کدھر جانا ہے، ہر سواری کو گاڑی میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے اِس طرح کوشش کرنا جیسے یہ آخری گاڑی ہو ۔ یا پھر یہ کہہ کر چلے جا نا کہ جگہ نہیں ہے اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔گاڑی کے اندر ٹیپ پر بے ہودہ میوزک اِس قدر بلند آواز میں چلانا کہ جیسے گاڑی پر تما م سوار افراد بہرے ہوں۔
 کہوٹہ پہنچ کرسواریوں کو لاری اڈا میں چھوڑنے کے بجائے  بائی پاس پر اِس وجہ سے اُتا ر دینا کہ گاڑی کو واپس  موڑنے کے لئے آدھا کلومیڑ کا چکر بچ جائے۔ بے چارے مسافر کواپنا سامان کندھوں پر اُٹھائے اڈا تک پیدل جانا پڑتا ہے۔ کچھ ڈرائیور تو چار ہاتھ آگے ہوتے ہیں ، وہ تو کہوٹہ سے باغ ساڑھے چار گھنٹے ٹارچر کرنے کے بعد جاتے جاتے ایک اور پیریڈ اِس طرح  لگاتے ہیں کہ گاڑی کو کہوٹہ پٹرول پمپ کے پا س سروس سٹیشن پر سواریوںسمیت کھڑا کر کے   گاڑی دُھلانا شروع کر دیتے ہیں ۔ بے چارے مسافر جنہوں نے دُور افتادہ گاؤں میں جانا ہوتا ہے اور پہلے ہی بہت لیٹ ہو چُکے ہوتے ہیں ،  مزید پریشانی اور ٹینشن کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔

                الغرض حویلی کے ٹرانسپوڑرز حویلی آنے والے مسافرں  کے سفر کو مشکل بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں اُٹھا کے رکھتے۔اِخلاقیات سے عاری یہ طبقہ اپنی مثال آپ  ہے۔ اِس تیسری دُنیا کے لوگ تو اِس صورت حال کے عادی ہو چکے ہیں ، مگر جب کوئی باہر سے پبلک ٹرنسپورٹ کے ذریعے حویلی چلا جائے تو پھر دوسری بار حویلی جانے سے توبہ کر لیتا ہے۔(بقیہ آئندہ) 

پیر، 17 اپریل، 2017

نوپارکنگ

1 تبصرے
 اقوام عالم میں اجتماعی سطح  پر بہت سی قدریں مشترک ہوتی ہیں، جو کہ مثبت اور منفی دونوں صورتوں میں موجود ہوتی ہیں، مگر  ہماری تو بات ہی الگ ہے۔ہم اکثرو بیشتردیکھتے ہیں کہ،جس جگہ "نو پارکنگ" یا "گاڑی یا موٹر سائیکل پارک کرنا منع ہے" کا سائن بورڈ آویزاں ہو وہاں لازمی طور پر گاڑیاں  اورمو ٹر سائیکل پارک کئے ہوئے نظر آئیں گئے،جس جگہ ”یہاں کوڑا کرکٹ پھیکنا منع ہے“ تحریر کیا گیا ہوگا وہاں لازمی کوڑا کرکٹ کےڈھیر نظر آئیں گئے۔ جس جگہ ”یہاں پیشاب کرنا منع ہے “تحریر ہو وہاں لازماً   لوگ پیشاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہم اِن چیزوں کے اِتنےعادی ہو چُکے ہیں کہ اگر کسی جگہ اِن ہدایات کی خلاف ورزی ہوتی دیکھائی نہ دے رہی  ہو تو حیرت ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
گذشتہ کئی مہینوں سے میں نے اِس مجموعی منفی سوچ اور رویّے کی وجہ جاننے کے لئے  تحقیق کا آغاز کیا کہ آخر پوری کی پوری قوم کیوں ایک ہی ڈگر پر چل رہی ہے،تحقیق سے مجھ پر یہ راز آشکار ہو ا، کہ مسئلہ لوگوں سے زیادہ ارباب اختیار اور سسٹم کا ہے، اور قوم تو صرف بدنام ہی ہو رہی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ، ہمارے ملک میں سوائے چند جگہوں کے پارکنگ کیلئے کوئی جگہ مخصوص نہیں کی گئی ہوتی ،جس جگہ لوگ خالی جگہ پا کر گاڑیاں یا موٹر سائیکل پارک کرنا شروع کرتے ہیں کچھ عرصہ کے بعد وہاں”نو پارکنگ“ کا بورڈ لگا دیا جاتا ہے، اور لوگوں کو کبھی بھی یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ، آیا وہ کس جگہ پارکنگ کی سہولت سے اِستفادہ کریں، چنانچہ وہ نو پارکنگ کی پرواہ کئے بغیر گا ڑی اُسی جگہ پارک کرتے ہیں۔ یہی حال کوڑا کرکٹ پھیکنے کے حوالہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے، میونسپل کارپوریشن کے عدم تعاون یا نا اہلی کی وجہ ے لوگ خالی پلاٹس، گلیوں کے نکڑیا قریبی نالوں میں کوڑا کرکٹ پھینکنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور بجائے جا بجا کوڑا دان لگانے کے، یا کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے کوڑا کرکٹ پھیکنا منع ہے کا بورڈ لگا کر ذمہ داری پوری کرنے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ اکثر تو نوٹس لگانےکی تکلیف بھی کسی کوڑا کرکٹ سے متاثر ہو والے شخص ہی اور اُٹھانا پڑتی ہے۔ نتیجتاً لوگ تحریر کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر کوڑا کرکٹ پھیکنا جاری رکھتے ہیں۔ الغرض یہی صورت حال مسافروں کے ساتھ بھی پیش آتی ہے، پبلک ٹوائلٹ عدم موجودگی میں یا اپنی سفید پوشی کی وجہ سے پیسے بچانے کے چکر میں جو نُکریا کونا کُھدرا تلاش کرکے رفع حاجت کرتے ہیں وہاں بھی کچھ ہی دنوں میں ”پیشاب کرنا منع ہے“ تحریر کر دیا جاتا ہے۔سو لوگ بھی نازیبا تحریروں کی موجودگی میں پیشاب کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ ہو نا تویہ جاہیے کہ اڈا مالکان کی طرف سے مسافروں کو ٹوائلٹ کی سہولت فری فراہم کرنی چاہئے، اور دیگر پبلک مقامات پر انتظامیہ کو عوام النّاس کی سہولت کے لئے پبلک ٹوائلٹس بنوانے چاہیں، تاکہ عوام بلا تفریق سہولت سے اِستفادہ حاصل کر سکیں۔

 المختصر ارباب اختیارعوام صرف ہدایات، نوٹسز، بورڈ لگانے سے زیادہ سہولیات دینےکو تیار نظر نہیں آتے، نتیجتاً عوام بھی نوٹسز اور بورڈزکونظراندزکرتے دیکھائی دیتے ۔اوراِس طرح عوام کی مجوعی عادات افکار انحطاط کا شکار ہورہی ہیں۔