گوگل ایڈ

بدھ، 15 جون، 2016

رمضان پاکستان

2 تبصرے
                رمضان المبارک کا مقدس مہینہ رحمتوں ،برکتوں  اور گناہوں  سے  معافی کا مہینہ ہے، مگر وطنِ عزیز پاکستان میں  تو لوگوں نے  اس مبارک مہینہ کو منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا مہینہ بنا لیا  گیاہے،  پاکستانی قوم کا  رمضان میں بدترین چہرہ سامنے آتا ہے۔پہلے تو لوگوں کی اکثریت روزہ ہی نہیں رکھتی اور جو  لوگ روزہ رکھ لیں وہ  ایک ہجانی کیفیت میں چلے جاتے ، لڑائی جھگڑے ، گالم گلوچ کے لئے تو بہانے کی تلاش ہوتی ہے،جہاں ایک طرف ان  اِخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہوتا ہے ،وہیں علی الاعلان لوگ منافع خوری کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہین۔ رمضان کے شروع ہوتے ہی روزمر ہ کی اَشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کو تو جیسے پر ہی لگ جاتے ہیں، پھل کو تو غریب صرف دیکھ ہی سکتا ہے ، بلکہ متوسط طبقہ کو بھی     اِن کی خریداری کرتے ہوئے دِن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں،  تاجروں میں خوفِ خُدا کا نام و نشان نظر نہیں آتا ، مگر خوفِ خدا آئے بھی کیوں؟جب وہ اِس کام کو غلط سمجھ کر کرتے ہوں۔ ہمارا معاشرہ اپنی پستی اور تنزلی کے اُس مقام پر پہنچ چکا ہے ،جہاں برائی کو برائی تصّور ہی نہیں کیا جاتا، بلکہ رمضان کو کاروباری منافع کا سیزن سمجھا جاتا ہے۔تاجر طبقہ اِس اصول پر یقین رکھتا ہے ،کہ پورے سال سے زیادہ منافع  اِسی ماہ ِ مّقدس میں حاصل کرنا ہے، چاہے اُ س کے لئے جو مرضی کرنا پڑے۔اور پھر رمضان کےآخری عشرہ کی آمد کے ساتھ ہی رمضان منافع کے ساتھ عید منافع بھی شامل ہو جاتا ہے ،وطنِ عزیز پاکستان میں  رمضان کے آخری تین دن  تو الامان الحفیظ نائی ،موچی سے لے کر تاجر اور ٹرانسپورٹرز تک، سب بہتی گنگا میں چھلانگ لگا  دیتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر منافع خوری کا یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو پھر دوبارہ ہاتھ نہ آئے گا- پورے رمضان سے زیادہ منافع عید رات کو کمانے کا ٹارگٹ رکھا گیاہوتا ہے۔

      ویسے تو ہمارے  کاروباری حضرات ، عوام الناس  کا حال ایسا ہوتا ہے کہ ایک اچھی ، مضبوط ، فرض شناس حکومت  کو بھی اِن حالا ت کو ٹھیک کرنے میں کافی دشواری  کا سامنا کرنا پڑے، مگر ہماری تو انتظامیہ بھی اِن فکروں سے آزاد اپنا اُلو سیدھا کرنے میں لگی ہوتی ہے۔ حکومت تو فقط محلات تک محدود ہوتی ہے، مگر سب کا م تو حکومت کے کرنے کے ہوتے بھی نہیں ، جب کوئی معاشرہ  اِخلاقی اِنحطاط  کا شکار ہو، تو وہاں کے حکمران بھی اُسی معیار کے ہوتے ہیں ، ایسے میں میڈیا کا کام لوگوں کی اِصلاح  کرناہونا چاہے، مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔رمضان میں سحرو افطار کے پروگراموں میں  علماء کی جگہ گانے بجانے  اور ناچنے والے مردوخواتین لوگوں کو دینی مسائل سے سیکھا رہے ہوتےہیں ، اِیسے معاشرے کا پھر اللہ ہی حافظ ہونا ہے۔جب ہم دیگر اقوامِ عالم کو دیکھتے ہیں تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں ، دیانت داری، حسنِ معاشر ت اور اِخلاقیات تو جیسے ہم سے چوری ہوکر اُن کے پاس چلے گئے ہوں، غرض یہ کہ رمضان میں ہماری قوم کی منافقت اور اِخلاقی اقدار کا کچا چٹھا کھل کر سامنے آجاتا۔